کینیڈا ، مسسی ساگا (خصوصی رپورٹ )مقامی اردو اخبار اور فیملی آف دی ہارٹ کے زیرِ اہتمام عفاف اظہر کی کتاب ”خیال جو حرزِ جاں ہوئے “ کی تقریبِ رونمائ مقامی ہال میں منعقد ہوئی۔ ہفت روزہ جنگ کینیڈا اور ادبی،ثقافتی تنظیم فیملی آف دی ہارٹ کی باہمی تعاون کے ساتھ منعقدہ اس تقریب نے شہر کی ادبی روایات میں ایک نئی طرح ڈال دی ہے۔ ہفت روزہ نےاعلان کردیا ہے کہ اب وہ شہر کےان لکھاڑیوں کو سامنے لائے گا جو ادبی گروپ بندیوں کی وجہ سے خاموش زندگی گذاررہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ شہر میں فیملی پروگراموں میں اچھے آئیڈیاز کے ساتھ نئے انداز کے پروگرام ترتیب دےگا۔ عفاف اظہر کی کتاب ”خیال جو حرزِ جاں ہوئے “ کی تقریبِ رونمائ کی صدارت ممتاز افسانہ نگار،شاعر و دانشور ڈاکٹر خالد سہیل نے کی۔ مہمانانِ خصوصی مقبول شاعر حمایت علی شاعر اور واشنگٹن سے آئے ہوئے ادیب و کالم نگار ظہور ندیم تھے۔ پروگرام کی کمپئرنگ ممتاز صحافی اور مزاح نگار مرزا یاسین بیگ نے اپنے مخصوص طنزیہ مزاحیہ انداز میں کی اور اپنے طنزیہ و مزاحیہ جملوں سے حاضرین کے دل موہ لیئے۔ کتاب کے پرنٹر کراچی کے نوجوان لکھاڑی افضال احمد نے کراچی سے اپنے بھیجے گئے تبصرے میں کہا کہ عفاف اظہر کی تحریریں لفظوں کی ملمع کاری سے پاک ہر دل کی آواز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھر میں ان کی کتاب ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ وہ فیس بک کے ذریعے دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں ۔ کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے نقاد و افسانہ نگار بلند اقبال نے کہا کہ پدرانہ اور مردانہ حاکمیت کو جس طرح عفاف نے اپنی تحریروں میں چیلنج کیا ہے وہ ان کے سچ اور عورتوں کے فکری ارتقا کو ظاہر کرتا ہے۔ عفاف اظہر جلتے کوئلوں سے لکھ رہی ہیں۔ وہ اکیسویں صدی کے نئے سماجی اور سائنسی معاشرے میں عورت کو جائز مقام دلانے اور دنیا میں نسل اور غربت کی بنیاد پر حق تلفیوں کے خاتمے کیلئے اپنی سوچ اور قلم کا بےباکانہ استعمال کررہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عفاف کے لکھے ہوئے الفاظ دھکتے ہوئے انگارے ہیں ۔ ان کی تحریر کا کھرا اور کڑوا سچ معاشرے کیلئے دوا جیسا اثر رکھتا ہے۔ شاعرہ ثمینہ تبسم نے کہا کہ عفاف کے قلم میں بڑی بےباکی اور
جرات ہے۔وہ آج کی مظلوم عورت اور استحصال کا شکار ہونے والے ہر فرد کی آواز ہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر ایک جوش ولولہ اور ظالموں کیلئے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ وہ سماجی برائیوں کی نہ صرف نشان دہی کرتی ہیں بلکہ اکثر اس کا حل بھی پیش کرتی ہیں۔ مقبول شاعر رفیع رضا نے عفاف کی کتاب پر منظوم تبصرہ کیا اور انھیں زہر بھرے ماحول کا تریاق قرار دیا۔ عفاف کی بڑی صاحبزادی ایمن اظہر نے کہا کہ میری ماں میرا آئیڈیل ہے۔ وہ جس طرح جاب،گھرداری کے ساتھ ساتھ لکھنے کا وقت نکالتی ہیں،وہ مشکل ترین کام ہے۔ ان کی مصروف زندگی کے ساتھ جب میں نے ان کی تین سو صفحات کی کتاب دیکھی تو حیران رہ گئی۔ مہمانِ خصوصی حمایت علی شاعر نے کہا کہ آج کے نوجوان ہم سے آگے ہیں۔ان سے میں آج بھی بہت کچھ سیکھ کر جارہا ہوں۔ عفاف کا جذبہ اور لکھنے کی لگن نے مجھے متاثر کیا۔ واشنگٹن سے آئے ہوئے تقریب کے دوسرے مہمانِ خصوصی ادیب ظہور ندیم نے لطیف پیرائے میں دلچسپ باتیں کیں۔ انھوں نے کہا کہ عفاف کی تحریریں دل چیر کر رکھ دیتی ہیں۔ وہ جو لکھتی ہیں وہ ہر انقلابی دل کی صدا ہے۔ عفاف جس معاشرے کا خواب دیکھتی ہیں وہ اگر شرمندہ تعبیر ہوجائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ پروگرام کے میزبان اور ہفت روزہ جنگ کینیڈا کے ایڈیٹر مرزا یاسین بیگ نے کہا کہ عفاف کی عمر اور ان کے لکھنے کی عمر دونوں کم ہیں مگر اب ان کی تحریر ان کی عمر سے بڑی لگتی ہے۔ مختصر اور برق رفتاری سے لکھنا عفاف اظہر کی عادت ہے۔ وہ خیالات کو اپنے اندر پالتی پوستی نہیں ہیں ، اس کام کیلئے انھوں نے تین بچے اور ایک شوہر رکھ چھوڑا ہے۔ کتاب کی مصنفہ عفاف اظہر کا کہنا تھا کہ میرا قلم اب میرے لئے فقط جذبات کے اظہار کا ایک ذریعہ نہیں رہا بلکہ میری لا محدود سوچ اور آزاد فکر کے اس سفر میں زندگی بھر کا ساتھی بن چکا ہے۔برسوں قبل اپنی حساس فطرت اور آزاد فکر کا ناتا قلم سے جوڑتے ہوئے
مجھے یہ گمان تک نہ تھا کہ روایتی ماحول میں پلی بڑھی ایک مشرقی عورت کی آزاد سوچ کا قلم سے تعلق، ایک ناجائز تعلق ہے مگر یہ بھی شکر ہے کہ اب مردانہ معاشرہ میری تحریروں کو آہستہ آہستہ قبول کررہا ہے۔ تقریب کے صدر ممتاز ادیب و دانشور ڈاکٹر خالد سہیل نے عمدہ انداز میں پروگرام،تبصروں اور عفاف کی تحریروں کے مختلف زاویوں اور اونچ نیچ کو اپنی گفتگو میں سمیٹا۔ ان کا کہنا تھا کہ عفاف کا انداز حبیب جالب جیسا ہے۔ وہ ظلم پر پوری قوت سے چیختی،ظالم کو چیلنج کرتی اور حق کی بالادستی کیلئے الفاظ کا پورا زور لگاتی ہیں۔ وہ حق گو لکھاری ہیں۔ مصلحت کا شکار نہیں ہوتیں۔ امن و آشتی کی پیامبر ہیں۔ ناانصافیوں کو دیکھ کر خاموش رہنا ان کا شیوہ نہیں۔انھوں نےاخبار کے روح رواں عامر آرائیں کے ادب نواز جذبے کو سراہا اور کہا کہ فیملی آف دی ہارٹ آپ کے ادبی اور فیملی پروگراموں میں ہمیشہ آپ کا ساتھ دےگی۔ پروگرام میں ٹورنٹو کے ممتاز ادیب و شعراء کے علاوہ ادب کے شائقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور عفاف اظہر کی کتاب کو شوق سے خریدا۔
عفاف اظہر کا انداز حبیب جالب جیسا ہے،وہ حق گو لکھاری ہیں،مصلحت کا شکار نہیں ہوتیں، امن و آشتی کی پیامبر ہیں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل ————
عفاف اظہر جلتے کوئلوں سے لکھ رہی ہیں۔۔ بلند اقبال، عفاف کے قلم میں بڑی بےباکی اور جرات ہے۔۔۔ثمینہ تبسم، عفاف کی تحریریں دل چیر کر رکھ دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ظہور ندیم، عفاف کی لکھنے کی عمر کم ہے مگر ان کی تحریر ان کی عمر سے بڑی لگتی ہے،یاسین بیگ ———————————————————————————
اس تقریب میں شامل شرکاء کی تصاویر
Leave a Reply